دارالعلوم سبیل الرشاد

رجسٹریشن فیس،رشوت اور جی یس ٹی میں بینک انٹرسٹ کی رقم دینا

رجسٹریشن فیس،رشوت اور جی یس ٹی میں بینک انٹرسٹ کی رقم دینا۔

سوال

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کہ بارے میں کہ میں نے ایک زمین مکان تعمیر کرنے کے لئے خریدی تھی ،رجسٹریشن فیس پانچ لاکھ روپے تھی جو انٹرسٹ کی رقم سے ادا کی گئی پھر چند سال بعد زمینی کاغذات میں سے ایک ڈاکو منٹ (بی بی یم پی منظور شدہ پلان) کی ضرورت پڑی جس کو جاری کرانے کے لئے گورنمنٹ فیس چھ لاکھ روپیے ادا کرنا تھا وہ بھی انٹرسٹ کی رقم سے ادا کی اور یہ رقم سرکاری محکمہ تک گئی تھی اور ایک صاحب نے مسجد کے لیے جگہ وقف کی تھی تو ابھی چار سال پہلے مسجد کی جگہ مسجد کے ٹرسٹ کے نام پررجسٹر کی گئی اس کے لیے رجسٹریشن فیس چھ لاکھ روپیے انٹرسٹ کے پیسوں میں سے ادا کی گئی، اسی طرح‌گورنمنٹ افسران سے کاغذات حاصل کرنے کے لئے رشوت کے طور پر وقتا فوقتا انٹرسٹ کی رقم دی گئی نیز کورٹ میں جو بے جا مقدمات میرے خلاف اس زمین پر ڈالے ڈالے گئے تھے ،ان افراد کے خلاف لڑنے کے لیے وکلاء جو بڑی بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کو بھی انٹرسٹ کی رقم دی گئی ہے،اسی طرح آج کل بہت ساری اشیاء جو مارکیٹ سے خرید تے ہیں ان میں (جی یس ٹی) کے طور پر رقم لیتے ہیں اتنی رقم سال بھر جو لی گئی اس کوایک جگہ لکھ لیتا ہوں اور اتنی رقم انٹرسٹ میں سے نکال کر استعمال میں لے آتا ہوں اس کا حکم کیا ہے ؟مذکورہ انٹرسٹ کی رقم ( اسٹیٹ بیانک آف انڈیا ، اکاؤنٹ ) سے حاصل شدہ تھی ،اتنی بڑی سود کی رقم اس طرح حاصل ہوئی کے باہر سعودی عرب میں ملازمت تھی جس کے لئے(ین ،آر ،آئی، اکاؤنٹ ) کھولاہوا ہے ،تیرہ سال سے اس میں اتنی انٹرسٹ کی رقم جمع ہوئی تھی تو شرعی اعتبار سے ان جگہوں پر انٹرسٹ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو یہ سب میرے ذمہ قرض ہے جو مجھ کو جلد از جلد بغیر ثواب کی نیت کے ادا کرنا ہوگانیز کن افراد کو یہ رقم ادا کریں گے؟ اور کیا کہہ کر دیں گے آپ حضرات مفتیان عظام سے گزارش ہےکہ دارالافتاء کے لیٹر پیڈ پرمدلل مفصل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔ المستفتی عبداللہ 

جواب

قرآن وحدیث میں سودی لین دین کرنے والوں کے لئے بڑی شدیدوعیدیں آئی  ہیں ، مسلمانوں کواس سے کامل اجتناب کرناچاہئے اور سود ی رقم سے اسی طرح قلبی نفرت وکراہت کرناچاہئے جس طرح شراب اورخنزیر سے ۔سودحاصل کرنے کی غرض سے بینک میں روپیہ جمع کرنا جائز نہیں ،سودی رقم کواپنے ذاتی فا ئدہ کے لئے استعمال کرنا جائز نہیںجس میں بی بی یم پی سے پلان جاری کرانے کی گورنمنٹ فیس،مسجد کی جگہ کی رجسٹریشن فیس ،جی یس ٹی کی رقم اوروکلاء کی فیس بھی شامل ہے،نیز انٹرسٹ سے رشوت دینابھی جائز نہیں ، موجودہ سودی رقم کی مضرت اور وبال سے بچنے کے لیے بلانیتِ ثواب غریبوں، محتاجوں اور بھکاریوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے تقسیم کردیں، آئندہ کرنٹ اکائونٹ میں رقم رکھی جائے اس میں سود نہیں ملتا۔

احل اللہ البیع وحرم الربو ( البقرۃ) ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (ردالمحتار ج ۶ص ۳۸۵)

About the Author

You may also like these