دارالعلوم سبیل الرشاد

وارثین کو وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں

وارثین کو وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں

سوال

بابا بھائی کی ایک بہن دو بیویاں اور پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں،بابا بھائی نے بہن کو اپنی زندگی میں ہی اس کا حصہ دے دیا تھا مزید اپنی بیٹیوں سے کہا کہ میری وفات کے بعد بھی اپنی مرضی سے اُسے کچھ دے دینا۔بابا بھائی کی ملکیت میں تین بنگلے،ایک پلاٹ،ایک فلیٹ (آفس کی شکل میں) تھے ،بابا بھائی نے اپنے تین بنگلوں میں سے دو بنگلے اپنی حیات ہی میں دو بیٹیوں کو ہبہ کرکے، ان کے قبضے میں دے کر، ان کے نام رجسٹرڈ کروادئے ہیں ،اور ایک بنگلہ بابا بھائی کے نام پر ہی ہے اس کے متعلق بیٹی سے کہا تھا کہ میری وفات کے بعد تو رکھ لینا،بابا بھائی نے فلاٹ آفس کی شکل میں کرایہ پر دیا تھا ،وفات کے بعد دونوں بیٹیوں نے اس کوآفس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرلیا ہے۔سوال 1) بابا بھائی نے دو بنگلے اپنی حیات ہی میں دو بیٹیوں کو ہبہ کردئے اس کا کیا حکم ہے کیا ان میں کسی اور کا حق ہے ؟سوال – 2) پلاٹ میں کس کوکتنا ملے گا؟سوال3) ایک فلیٹ (آفس کی شکل میں) بابا بھائی کی وفات کے بعد بیٹیوں نے اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرلیا ہے اس کا کیا حکم ہے اس میں کس کا کتنا حصہ ہے؟ کیا اس میں دو بیویوں اور بہن کا بھی حصہ ہے؟سوال – 4) بابا بھائی نے اپنی بیٹیوں سے کہا تھا کہ میری وفات کے بعد میری بہن کو اپنی مرضی سے کچھ دے دینا تو بیٹیوں پر اپنی پھوپھی کو کچھ دینا ضروری ہے کیا؟ اگر دینا ہے تو کتنا دینا ہے؟ بینوا توجروامستفتی : شعیب احمد ،
بنگلور

جواب

میت جوکچھ اپنی ملکیت میں باقی رکھتے ہوئےانتقال کرجائےوہ اس کا ترکہ ہے،اس کی تقسیم خود اللہ تعالی متعین طورپر فرماتا ہے، ترکے میں جملہ و رثہ کاحق رہتاہے،اس کی تقسیم میں دیر نہیں کرنی چاہئےاورمرحوم کے تمام وارثوں کوبلاتاخیر ان کاحق دیدیناچاہئے،تقسیم کے بغیر کسی ایک وارث کا ترکے میں تصرف کرناجائز نہیں ۔(۱) جب مرحوم نے اپنےدوبنگلے اپنی دولڑکیوںکوہبہ کرکے ان کے نام رجسٹر کروادئےاوردونوں لڑکیوں نے موہوبہ بنگلوںپر قبضہ کرلیا تو وہ ان کی ملک بن گئے اور مرحوم کا ترکہ نہیں رہے،دیگروارثین (دوبیویاں اور بہن)کااس میں کوئی حق نہیں، (۲،۳،۴) دولڑکیوں  کا فلاٹ اپنے نام کرلینااوردیگرورثہ کو حصہ نہ دینا جائز نہیں، اس میں مرحوم کی دوبیویوں  اور بہن کابھی حصہ ہے ، نیز ہروارث (بشمول بہن )کو شریعت کے مطابق حصہ دینا چاہئے،اس میںکسی کی مرضی یا اختیار باطل اورشرعا غیر معتبر ہے،در صورتِ حصر ورثہ حقوقِ ضروریہ (اخراجاتِ کفن دفن ، دوبیویوں کا مہر اگر زندگی میں نہ دیاہو،اورقرض وغیرہ) کی ادائیگی کے بعد مرحوم کے کل ترکے(جس میں ایک بنگلہ ،پلاٹ اور فلاٹ شامل ہے ) کو اڑتالیس حصوں میں تقسیم کرکے دوبیویوں میں سے ہرایک کو تین حصے، دولڑکیوں میں سے ہرایک کو سولہ حصےاور بہن کو دس حصے دیے جائیں ۔

الميراث سمي فرائض لأن الله تعالى قسمه بنفسه وأوضحه وضوح النهار بشمسه ولذا سماه صلى الله عليه وسلم نصف العلم لثبوته بالنص لا غير(الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ج۶؛ ص ۷۵۸) الھبۃ الخ وتتم الھبۃ بالقبض الکامل (الدرالمختار علی ھامش ردالمحتار ج۵، ص۶۹۰)
واللہ اعلم
العبد صغیر احمد عفی عنہ
۹ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ

About the Author

You may also like these